Participation in the Mushaira.
تبصرہ۔۔۔ آزار خیال ؔ (خیال لداخی)
مختار زاہدؔ بڈگامی (کرکت کرگل) حقیر کو جس ہستی کے کلام پر تبصرہ کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔جو دنیائے ادب میں ایک ابھرتی شخصیت ہے۔ان کے کلام پر تبصرہ میرے لئے سہل نہیں۔بہر حال جناب نظیر صاحب اور علی ٹاک صاحب کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے چند مختصر سی سطور ”آزار خیال ؔ“ کے حوالے سے آپ حاظرین کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کرونگا۔
آزار خیال پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے سے پہلے میں اس کتاب کے مالک جناب جگمت نربو خیال لداخی کی اب تک کی ادبی زندگی کے بارے میں چند مختصر باتیں آپ حضرات کے گوش گذار کرنا ازحد ضروری سمجھتا ہوں۔
خیال ؔلداخی صاحب کی ولادت خطہ لداخ کے ضلع لیہ میں ایک برہمن گھرانے میں ہوئی۔ابتدائی تعلیم انہوں نے لیہ میں ہی حاصل کی۔ان کے ادبی سفر کا آغاز آج سے ۷۲ سال قبل ہوا۔اپنی کتاب آزارِ خیال کے دیباچہ میں خیال صاحب ایک جگہ رقم طراز ہیں:
”زندگی جتنی محدود لگتی ہے اتنی لامحدود ہوتی جاتی ہے۔میں نے اپنے شعر و شاعری
کے سفر کا آغاز تقریباً ۷۲ سال قبل کیا۔آج جس مقام سخن پر میں پہونچا ہوں وہاں
تک پہونچنا میرے لئے بالکل آسان نہیں تھا۔ایک ایسے ماحول میں رہ کر شاعری
کے اصول سیکھنا جہاں پر نہ کوئی اردو کا عاشق تھا اور نہ ہی کوئی ماہر سخن۔میری مشکل
اتنی ہی نہیں تھی کہ میں ایک ایسے علاقہ سے تعلق رکھتا تھا جہاں پر اردو کا رجحان بہت
ہی کم تھا۔بلکہ میری مشکل یہ تھی کہ میں اردو پڑھا نہیں تھا۔“
بقول خیالؔ لداخی ایک سرکاری اسکول میں انہوں نے صرف دو سال تک اردو کی تعلیم حاصل کی۔ان کے مطابق انہوں نے اردو دو استادوں سے سیکھی ہے،ایک ان کے والد مرحوم جنہوں نے انکا ہاتھ تھام کے اردو قاعدے کی مشق کروائی اور ایک استاد حاجن زبیدہ خاتون کے بارے میں خیال فرماتے ہیں کہ انہوں نے مجھے اسکول میں اردو قاعدہ سے روبرو کرایا۔ بقول انکے وہ ان دونوں شخصیات کا ہمیشہ شکر گذار رہینگے۔اپنی ادبی زندگی کا صحرا انہی دو شخصیات کے سر باندھتے ہوئے خیال فرماتے ہیں۔ :
تربیت مجھ کو ملی ہے خاص لوگوں سے خیال ؔ
اپنے ہی اس دائیرے میں جو میں ماہر ہوگیا
یوں غنی ہوتا گیا اردو کا ان کے فضل سے
قاعدہ آدھا پڑھا اور پور ا شاعر ہو گیا
1990ء کے آ س پاس خیالؔ نے اردو میں شعر کہنا شروع کیا۔ذاتی محنت اور لگن کا نتیجہ کہئے جگمیت نوربو نے اردو زبان پر ایسی عبوریت حاصل کی کہ انکی ادبی زندگی کی اولین دھائی میں ہی ان کا سخن کمال تک پہونچ گیا۔2013ء میں انکی شاعری کا پہلا مجموعہ
”ابتدائے خیال“ کے نام سے منظر عام پر آیا۔
آزار خیال کی تقریظ میں ایک جگہ خطہ لداخ کے مشہور ادیب و شاعر کاچو اسفندیار خان فریدون ؔ خیال لداخی کے بارے میں کچھ یوں رقم طراز ہیں:
”خیال ؔ لداخی کو صرف دو سال تک اسکول میں اردو پڑھنے کا موقعہ ملا
لیکن اردو زبان سے ا تنی سی شناسائی ہی ان کو اس زبان کا شیدائی
بنانے کے لئے کافی تھی۔اس شوق و مستی اوراردو سے لگاؤ کا نتیجہ یہ نکلا
کہ اردو میں شعر کہنے لگے اور آج اردو میں ان کی دوسری جماعت تک
کی پڑھائی سینکڑوں بی۔اے اور ایم۔اے پر بھاری نظر آتی ہے۔“
اردو سے اپنی محبت کا اظہار خیال ؔ لداخی کچھ یوں کرتے ہیں:
حرفوں میں جہاں غالب ؔو خسروؔ کا بسیرا
ہر لفظ کوئی گُل ہے گلستان ہے اردو
کہتے ہیں خیال ؔ آج یہ جی کھول کے دیکھو
اردو میر ا مذہب میرا ایمان ہے ا ردو
”ابتدائے خیال ؔ “ کے منظر عام پر آنے کے بعد خیال ؔ فن شاعری میں کامل ہوگئے۔انہی دوران انہوں نے انٹرنیت کے ذریعہ علم عروض کچھ استاد شعرا سے سیکھنا شروع کیا۔دو سال کے بعد انہوں نے شاعری کے عروض و قواعد پر بھی دسترس حاصل کی۔
بڑی مشکل عبارت ہے سخن سازی خیال آخر
قلم تھکتے نہیں ہیں ہاں قلم بس ٹوٹ جاتے ہیں
قواعد العروض و القوافی کے ہیں پیچیدہ
لکھو پابند ہو کر تو پسینے چھوٹ جاتے ہیں
اسے کمال فن کہیں تو اور کیا کہیں دو سال کے مختصر وقفہ میں انہوں نے اپنا دوسرا مجموعہ کلام منظر عام پر لایا۔جو 2015ء میں
”دیوان خیالؔ“ کے نام سے شایع ہوا۔اسے اتفاق کہیں یا کچھ اور:
خیالؔ لداخی صاحب نے اردو زبان کی تعلیم صرف دو سال ہی حاصل کی،
دو سال میں انہوں نے علم عروض حاصل کی،
2013ء میں ان کا پہلا مجموعہ کلام ”ابتدائے خیالؔ“ شایع ہوا جس میں 222غزلیں، نظمیں اور قطعات شامل تھے۔
2013ء اور2015ء ان دو سالوں کے درمیان ان کا دوسرا مجموعہ کلام ”دیوان خیالؔ“ منظر عام پر آیا۔
جبکہ 2015ء اور2017ان دو سالوں کے بعد ان کا تیسرا مجموعہ کلام ”آزار ِ خیال ؔ“ خیال شایع ہوا۔
آزار خیال ؔ میں کل 87 غزلیں 58قطعات ۱ دوہے اور 3 نظمیں شامل ہیں۔کتاب کا آ غاز شاعر نے ایک ایسی غزل کے ساتھ کیا ہے جس میں شاعر زمانے کے قلم کاروں سے مخاطب ہیں۔اس غزل میں شاعر نے دنیا کی بے ثباتی کے ساتھ امروز کے مختلف پہلووں کا ذکر کیا ہے۔یہ چودہ اشعار والی غزل فقط حقیقت امروز پر ہی مبنی ہے۔
قلم کارِ زمانہ مرا قصہ لکھے گا
مگر افسوس یارو مجھے مردہ لکھے گا
کبھی ایسا لکھے گا کبھی ویسا لکھے گا
قلم پہ شک ہے مجھ کو نہ جانے کیا لکھے گا
غم فرقت میں ڈوبا خموشی سے خیال ابؔ
قبائے گُل کو پھر سے کوئی کانٹا لکھے گا
اردو غزل میں خیال ؔ مرزا غالب ؔ، داغؔ دہلوی اور جگر ؔ مراد آبادی کی شاعری سے کافی متاثر نظر آتے ہیں۔انہوں نے ان شعرا کی زمینوں پر بھی غزلیں کہی ہیں۔وہ غالب ؔکواردو غزل کے سب سے بڑے زمیں دار قرار دیتے ہیں۔یہاں زمیں دار سے مراد غزل کی زمین ہے۔ ؎
دیکھے ہیں میں نے شاہ ِ سخنور کئی مگر
ہاں اس کے قد کا کوئی بھی کردار نہ ملا
جب جب بھی ڈھونڈتا ہوں زمیں باخدا مجھے
غالبؔ سے بڑھ کے کوئی زمیندار نہ ملا
اردو شاعری اور اردو ادب کو غالب ؔ کا چمن قرار دیتے ہوئے خیال ؔ فرماتے ہیں۔ ؎
بجھنے نہ دیا شمع تمدن کو کبھی بھی
پالا ہے بڑے ناز سے غالب ؔ کے چمن کو
کچھ لوگ فقط نام کے شاعر ہیں ابھی بھی
کچھ لوگ مگر خون بھی دیتے ہیں سخن کو
آزار خیال ؔ میں شامل ان ۷۸ غزلوں میں حسن و عشق کی سرمستی ،ہجر و وصال کے واردات ، دنیا کی بے ثباتی، غم ِ عشق اور غمِ روزگارجیسے روایتی موضوعات کے علاوہ چند نئے اور حقیقی موضوعات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ایک جامع غزل میں پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کے نواسے حضرت امام حسین ؑ کے بارے میں اپنے جزبات اور احساسات کا اظہار کچھ اس طریقے سے کیا ہے۔ ؎
دنیا حسین ؑ کی ہے یہ عالم حسین ؑ کا
لہرا رہا ہے شان سے پرچم حسین ؑ کا
ہر لمحہ چاک چاک کئے جائے ہے سنو
اس نشتر ِ یزید کو بھی غم حسین ؑ کا
گویا کہ کوئی پسر برہمن خیال ؔ ہے
لیکن زبان پہ نام ہے پیہم حسین ؑ کا
دنیا کی موجودہ حالت سے بھی خیال کافی پریشان نظر آتے ہیں۔آج کی دنیا میں جو بھی چیزیں نظر آ تی ہیں وہ انہیں فرضی اور مصنوعی قرار دیتے ہیں۔
عجب حالت ہے دنیا کی بشر بھی مصنوعی ہے
دوا بھی جام بھی خُم بھی زہر بھی مصبوعی ہے
نظر آتی نہیں ہے اب حقیقی بات کوئی
جگر کے داغ بھی نقلی نظر بھی مصنوعی ہے
کہاں کا علم کیسی دانشی کیسی محبت
بصیرت بھی فضیلت بھی ہنر بھی مصنوعی ہے
موت اٹل ہے ہر شے کو ایک نہ ایک دن ضرور مٹنا ہے۔دنیا کی بے ثباتی کے بارے میں خیالؔ یوں فرماتے ہیں۔:
زندگانی کے اندھیروں میں چھپا بیٹھا ہو ں
موت سے آج بھی امید لگا بیٹھا ہوں
انکے پہلو میں کسی برق ذدہ کی مانند
اتنا رویا ہوں کہ ان کو بھی رلا بیٹھا ہوں
یاد آتی ہے کبھی موت کی مجھ کو لیکن
زندگی تجھ کو تو مدت سے بھلا بیٹھا ہوں
آزار خیال ؔ میں شامل قطعات بھی خیالؔ کی غزلوں کی طرح زبان و بیان کے اعتبار اعلیٰ پایہ کے ہیں۔انہوں نے ان قطعات میں عصری مسائل،معاشرے کے بدلتے حالات،بھائی چارگی اور ہم آہنگی کے پیغامات کے علاوہ حسن عشق کے رموز و واقعات جامع طریقے سے پیش کئے ہیں۔آئیئے خیال کے چند قطعات ملاحظہ کریں۔
خطہ لداخ کو امن کا گہوارہ مانتے ہوئے خیال لداخی اپنے ایک قطعہ میں یہاں کے لوگوں کو کینہ و انانیت سے دور رہنے کی تلقین کچھ اس طرح سے کیا ہے۔
یُو ں مساوات کی تبلیغ کریں ہم مل کر
نہ کوئی رنج رہے بودھ مسلمانوں میں
نیست و نابود ہو کینہ و انانیت ہم سے
عام تعلیمِ محبت ہو دبستانوں میں
خیال ؔ کی نظر عصری مسائل پر بھی ہیں۔دور حاضر میں ہو رہے نامسائب حالات پر وہ افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔انہی حالات کے بارے میں وہ ایک قطعہ میں فرماتے ہیں۔:
میں باندھ کفن سر پہ نکل آیا ہوں گھر سے
گر جان ہی دینی ہے تو پھر میری بھی ہاں ہے
حالات میرے ملک کے ایسے ہیں یہاں پر
ہر طفل ہے شمشیر تو ہر مرد جواں ہے
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
میں سلامت ہوں سلامت ہوں پہاڑوں میں ہی
جو میں وادی میں اتر آؤں بکھر جاتا ہوں
خیال ؔ طنز و مزاح کے بھی اعلیٰ پائے کے شاعر ہیں۔ان کی غزلوں میں درد و غم کی ترجمانی بھی ہے تو دوسری طرف وہ اپنی ظریفانہ شاعری کے ذریعہ لوگوں کو خوب ہنساتے بھی ہیں۔مرزا غالب ؔ کی کئی مشہور غزلوں کی زمینوں میں انہوں نے زبردست ظریفانہ اشعار کہے ہیں۔
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا۔۔۔۔۔ غالب ؔ کی اس مشہور غزل پر خیال ؔ نے اپنا قلم کچھ اس طرح چلایا ہے۔ ؎
اگر عشق سرپھروں کا کوئی کاروبار ہوتا
مجھے اس سے اس کو اس سے اسے اس سے پیار ہوتا
میں بھی روز تجھ سے ملتا تیرے آس پاس رہتا
مرے گھر سے دو قدم پہ جو ترا مزار ہوتا
میرا تیر دشمنوں کے کوئی چھت پہ جا کے اٹکا
میں بھی فاتحہ میں جاتا جو وہ آر پار ہوتا
کہیں وہ جہاں بھی ہوتا جہاں نل سے مئے ٹپکتا
کبھی ہم وضو کو جاتے تو وہی خمار ہوتا
آزار خیال ؔ کے آخری حصہ میں دوہے۔ چند اشعار اور ۳ نظمیں شامل ہیں۔ ان نظموں میں نظم دیوالی سے چند اشعار ملاحظہ کریں۔ ؎
ذہنوں میں خوشی منہ پہ ہنسی لائی دیوالی
کچھ رنگ نئے لے کے چلی آئی دیوالی
جب رات گئی اوڑھ کے خسروؔ کی رباعی
غالبؔ کی غزل بن کے چلی آئی دیوالی
خیالؔ لداخی کی زیر طبع کتابوں میں ان کا چوتھا شعری مجموعہ ”اظہار خیال“ کے علاوہ علم عروض پر مبنی کتاب ”قاعدہ سخن“ بہت جلد منظر عام پر آ رہی ہیں۔امید ہے خیالؔ صاحب اردو ادب کے لئے اپنی خدمات مستقبل میں بھی یوں ہی جاری رکھینگے۔۔۔۔انشا اللہ
شکریہ۔۔۔
Mushaira Jashn e baharan Kargil 25 Apr 2018
Kul Hind Mushaira Drass 02 Sept 2018
Mushaira LAMO Leh 18 Feb 2016
Click to view:
ظلم مجھ پر جناب کرتے ہیں
باخُدا بے حساب کرتے ہیں
خود کو خوگر کیا ہے خود اپنا
پھر وہ خود سے حجاب کرتے ہیں
گفتگوئے شراب کر کر کے
میری نیت خراب کرتے ہیں
اب قیامت ہے اب قیامت کا
آئیے ہم حساب کرتے ہیں
روز جائیں نہ ہم خرابے کو
گاہے گاہے ثواب کرتے ہیں
آئینوں کی خطا نہیں اِس میں
وہ تو خود سے حجاب کرتے ہیں
سارے عالم کو میکدہ کر کے
زندگی کو شراب کرتے ہیں
دل لگانے کے واسطے ہم بھی
دل لگی بے حساب کرتے ہیں
ہیں خطائیں خیالؔ خاروں کی
جرم نامِ گلاب کرتے ہیں
ज़ुलम मुझ पर जनाब करते हैं
बाख़ुदा बे-हिसाब करते हैं
ख़ुद को ख़ूगर किया है ख़ुद अपना
फिर वो ख़ुद से हिजाब करते हैं
गुफ्तगू ए शराब कर कर के
मेरी नीयत ख़राब करते हैं
अब क़यामत है अब क़यामत का
आईए हम हिसाब करते हैं
रोज़ जाएं ना हम ख़राबे को
गाहे-गाहे सवाब करते हैं
आईनों की ख़ता नहीं इस में
वो तो ख़ुद से हिजाब करते हैं
सारे आलम को मैकदा कर के
ज़िंदगी को शराब करते हैं
दिल लगाने के वास्ते हम भी
दिल-लगी बे-हिसाब करते हैं
हैं ख़ताएँ ख़याल ख़ारों की
जुर्म नाम-ए-गुलाब करते हैं
Khayal Ladakhi
A few golden moments with Pandit Anand Mohan Zutshi (Gulzar Dehlavi) at his residence in Noida, Feb 2020..
बला से हो के रह जाए ज़माना नुक्ताचीं लेकिन
हमारी बात से बढ़ कर हमारी बात ही होगी
At Baba Ghulam Shah Badshah University Rajauri J&K
With some of the Urdu poets and writers of Ladakh
23 Nov 2022
کسی کی آنکھ کا کھٹکہ نہیں تھا
مرا ہونا مرا ہونا نہیں تھا
مرے درد و الم کو جزب کرتا
سمندر اس قدر گہرہ نہیں تھا
مرے چہرے سے مجھ کو آنک لیتے
مرا کردار تو جھوٹا نہیں تھا
ادھورا آدمی تھا میں بھی اُس دم
مرے ماتھے پہ جب قشقہ نہیں تھا
خُدا والے ہی دیدہ تھے ہر اک جا
خُدا والوں میں اک بندہ نہیں تھا
دریچوں سے نبھائی خوب ہم نے
کوئی دروازہ لیکن وا نہیں تھا
قیاس آرائیاں تھیں کیا زمیں پر
ابھی وہ بام سے اُترا نہیں تھا
ضمیر اپنا بھی تھا کچھ خشک لیکن
وہاں بھی خون کا قطرہ نہیں تھا
ہماری موت پر اپنے ہی گھر میں
ہماری موت کا چرچہ نہیں تھا
بھلے تھے لوگ جنت میں بھی کتنے
وہاں لیکن کوئی مجھ سا نہیں تھا
خیالؔ اب مر گیا کہتی ہے دنیا
مگر وہ تو کبھی زندہ نہیں تھا
किसी कि आँख का खटका नहीं था
मेरा होना मेरा होना नहीं था
मेरे दर्द ओ अलम को जज़्ब करता
समंदर इस क़दर गहरा नहीं था
मेरे चहरे से मुझ को आंक लेते
मेरा किरदार तो झूठा नहीं था
अधूरा आदमी था मैं भी उस दम
मेरे माथे पे जब क़श्क़ा नहीं था
खुदा वाले ही दीदा थे हर इक जा
खुदा वालों मे इक बन्दा नहीं था
दरीचों से निभाई खूब हम ने
कोई दरवाज़ा लेकिन वा नहीं था
क़यास आराइयाँ थीं क्या ज़मीं पर
अभी वह बाम से उतरा नहीं था
ज़मीर अपना भी था कुछ खुश्क लेकिन
वहां भी खून का क़तरा नहीं था
हमारी मौत पर अपने ही घर मे
हमारी मौत का चर्चा नहीं था
भले थे लोग जन्नत मे भी कितने
वहां लेकिन कोई मुझ सा नहीं था
ख़याल अब मर गया कहती है दुनिया
मगर वह तो कभी ज़िंदा नहीं था
Khayal Ladakhi's Hindi collection
BOOK LAUNCH, GHALIB ACADEMY "IZHAAR E KHAYAL" 15 Feb 2023...
MAZAR E GHALIB, NIZAMUDDIN DELHI... with poets/literary people...15 Feb 2023...
15 Feb 2023...
Ibn e seena Academy in collaboration with Aligarh Muslim University presenting memento... 17 Feb 2023...
Book launch Ibn e Seena Academy Aligarh in collaboration with AMU...
17 Feb 2023...
CEC Leh Launches Khayal Ladakhis Book in Leh
Khayal Ladakhi Intro by Miss Adeeba...https://youtu.be/o8jEBWpTN2Q
NEWS
Degree college Leh Multilingual Mushaira 26 Aug 2023
A Poetic Session in Spindle Leh 26 Aug 2023